The 2024 Summer Olympics: A Historic Celebration in Paris

The world is gearing up for one of the most anticipated events in sports history—the 2024 Summer Olympics. Set against the backdrop of the stunning city of Paris, this edition of the Olympics promises to be a blend of tradition, innovation, and sustainability. Let's dive into what makes the 2024 Summer Olympics a landmark event.

 




A Return to the Cityof Lights

 

Paris, the City of Lights, will host the Summer Olympics for the third time, having previously done so in 1900 and 1924. The city's rich history, culture, and iconic landmarks provide a unique and enchanting setting for the games. From the majestic Eiffel Tower to the historic Champs-Élysées, Paris will offer a visually spectacular experience for athletes and spectators alike.

 

Iconic Venues and New Arenas

 

The 2024 Olympics will utilize some of Paris's most famous landmarks as event venues:

Stade de France:

 Located in Saint-Denis, this stadium will host the opening and closing ceremonies, as well as athletics events.


Eiffel Tower:

The area around this iconic structure will be transformed for beach volleyball competitions.

Champs-Élysées:

This famous avenue will serve as the venue for road cycling events.

Les Invalides:

 The historic complex will host archery competitions.

 

In addition, the Olympic Village in Seine-Saint-Denis and its newly constructed sports facilities will accommodate thousands of athletes and support staff.

 

A Diverse Array of Sports

 

The 2024 Olympics will feature a mix of traditional and new sports, catering to a wide range of athletic talents and interests:

Breaking:

Making its Olympic debut, breaking (breakdancing) will bring a fresh, urban vibe to the games.

Surfing, Skateboarding, and Sport Climbing:

These sports, which debuted in Tokyo 2020, will return, continuing to appeal to younger audiences.

Classic Events:

Athletics, swimming, gymnastics, and other traditional sports will remain at the heart of the Olympics, showcasing the pinnacle of athletic excellence.

 

Pioneering Sustainability

 

Paris 2024 is set to be the most sustainable Olympics ever, with a strong emphasis on eco-friendly initiatives:

Low-Carbon Infrastructure:

The city is constructing new venues with low carbon footprints and renovating existing ones to meet sustainability standards.

Renewable Energy:

The games will heavily rely on renewable energy sources to power events and facilities.

Public Transportation:

 An extensive public transport network will reduce the carbon footprint of the games, encouraging the use of trains, buses, and bicycles.

A Cultural Extravaganza

 

The 2024 Olympics will be more than just a sporting event; it will be a celebration of French culture and heritage:

Art and History:

Various cultural events and exhibitions will highlight France's artistic and historical legacy.

Community Engagement:

 Initiatives to engage local communities and youth in sports and cultural activities aim to leave a lasting positive impact.

 


Important Dates to Remember

 

Opening Ceremony: July 26, 2024

Closing Ceremony:August 11, 2024

 

The countdown to the Paris 2024 Summer Olympics has begun. As athletes train rigorously and the city prepares to welcome the world, the anticipation builds for what promises to be an unforgettable celebration of sports, culture, and sustainability.

 

Stay tuned for more updates and stories as we get closer to the grand opening of the Paris 2024 Summer Olympics!


KUMRAT Valley Complete Guideline کمراٹ ویلی جانے کے 2 راستے (مکمل راہنمائی)

 KUMRAT Valley Complete Guideline
کمراٹ ویلی جانے کے 2 راستے (مکمل راہنمائی)

💕


باڈگوئی پاس جو سطح سمندر سے 11558 فٹ بلندی پر واقع ھے ایک نہایت خوبصورت ترین راستہ ہے جو کہ کالام کو براستہ اتروڑ کمراٹ سے ملاتا ہے

 #باڈگوئی_ٹاپ اونچائی کے لحاظ سےقدرت نے نہایت خوبصورت مناظر ، برفانی گلیشئر ، قدآور درختوں اور میڈوز سے آپ کیلئے سجایا ھے۔


خیبر پختونخواہ کے ضلع دیر میں واقع وادی کمراٹ ایک قدرتی حسن سے مالامال علاقہ ہے ۔

 کمراٹ ویلی آنے  کے لئے سب سے پہلے مردان شہر  آنا ہوگا، اگر آپ پنجاب کے طرف سے آرہے ہیں تو آپ کو اسلام آباد سے براستہ موٹروے سیدھا چک درہ انٹرچینج آنا ہوگا، اگر بذریعہ ھائی وے یا بائیک سے آرہے ہیں تو آپ کو پشاور کے قریب مردان کی طرف مڑنا ھو گا۔ مردان ٹو کمراٹ تھل روزانہ کے بنیاد پر لوکل گاڑیاں بھی چلتی ہے، آپ کسی بھی لوکل گاڑی میں بیٹھ کر آرام سے تھل کمراٹ پہنچ سکتے ہیں، لیکن اگر آپ اپنے بائیک پر آ رہے ہیں تو پھر مردان سے آپ نے ملاکنڈ کے طرف جانا ہوگا۔ ملاکنڈ کو کراس کرکے آگے بٹ خیلہ شہر آئے گا، اس سے آگے پھر چکدرہ نام کا ایک چھوٹا سا شہر آئے گا، وہاں روڈ دو حصوں میں تقسیم ہوجاتا ہے، 


1. ایک راستہ سوات کالام باڈگوئ کی طرف سے
2. دوسرا راستہ دیر بالا کی طرف سے نکلتا ہے۔ 


1.# اگر آپ نے سوات کالام - اتروڑ سے ھوتے ھوئے باڈگوئ پاس کی طرف سے آنا ہے تو پھر منگورہ سوات کے طرف جانا ہوگا، چکدرہ سے منگورہ سوات کے طرف نکلنے کے بعد سوات کوہستان کے صدر مقام بحرین آنا ہوگا۔  بحرین سے پھر آگے کالام اور پھر اتروڑ سے ہوکر باڈگوئی پاس کے ذریعے آپ تھل پہنچ سکتے ہیں، چکدرہ سے لے کر کالام تک ایک بہترین روڈ بن چکی ھے۔ اور کالام سے آگے یعنی باڈگوئی پاس کا راستہ جیپ ٹریک ھے، اگر آپ کے پاس اپنی جیپ ھے تو ٹھیک ورنہ اپنی گاڑی کالام میں پارک کرکے وہاں سے جیپ ہائر کرکے تھل پہنچنا ہوگا۔ چکدرہ سے لے کر تھل تک راستے میں آپ مدین، بحرین، کالام اتروڑ اور پھر آگے دشت لیلیٰ باڈگوئی جیسے خوبصورت علاقوں سے گذر کر تھل پہنچیں گے ۔ اگر کسی کے پاس وقت اور 4x4 فور بائی فور گاڑی یا بائیک ھو تو یہ راستہ بہت پر لطف ھے۔


2 .# اگر آپ نے دیر کےطرف سے آنا ہے تو پھر آپ نے سوات کے طرف جانے کے بجائے دیر اپر کے طرف آنا ہوگا، راستے میں تیمرگرہ شہر آئے گا، یہاں سے بھی تھل کمراٹ کی لوکل گاڑی آرام سے مل سکتی ہے، تیمر گرہ سے آپ نے اپر دیر کے طرف جانا ہوگا، راستے میں چھوٹے چھوٹے شہر،  قصبے آئیں گے لیکن آپ نے سیدھا چکیاتن پہنچنا ہے۔ چکیاتن دیر شہر  سے تقریباٰ 5 یا چھ کلومیٹر پہلے آتا ہے، یہاں پل کراس کرنے سے پہلے ایف سی کی ایک چیک پوسٹ ہے ۔ چیک پوسٹ سے آگے سیدھے ہاتھ پر ایک بڑا گیٹ سا بنا ہوا ہے جس کے اوپر باب کمراٹ لکھا ہوگا ۔ آپ نے اس گیٹ سے گذر گر دیر کوہستان کے طرف آنا ہوگا، آگے شرینگل نام کا ایک چھوٹا سا قصبہ آئے گا، چکیاتن سے لے کر شرینگل تک  سڑک کی حالت بہت اچھی  ھے، شرینگل سے آگے تھل تک روڈ اگرچہ اتنا بہتر نہیں ہے لیکن کار وغیرہ آرام سے آسکتی ہے۔ شرینگل سے آگے راجکوٹ ( پاتراک ) نام کا ایک گاوں آئے گا۔ اس کے بعد  جار ( بیاڑ ) آئے گا۔ پھر آگے جاکر پیود پھر کلکوٹ اور پھر تھل آئے گا، تھل دیر کوہستان کا سب سے آخری گاوں ہے اس سے آگے کمراٹ کا علاقہ شروع ہوتا۔ تھل میں  ضروریات زندگی کی تمام اشیاء دستیاب ہیں ۔ تھل میں اپنی کار پارک کرکے آپ نے کمراٹ کے لئے جیپ ہائر کرنی ہوگی۔ کمراٹ کے جنگل میں کئی ہوٹلز ہیں ، آپ چاہئے تو کسی ہوٹل میں آرام کر سکتے ہیں ، چاہئے تو اپنا کیمپ بھی لگا سکتے ہیں ، ویسے ٹینٹ ہوٹلز بھی بہت سارے ہیں جہاں آپ بے فکر ہوکر رات گذار سکتے ہیں ۔۔

ویسے تو پوری وادی کمراٹ دیکھنے کی قابل ہے لیکن کچھ مقامات ایسے ہیں جنہیں دیکھے بغیر واپس آنا میرے خیال میں کمراٹ کی حسن کی توہین ہوگی۔ 


1 : جامع مسجد دارالاسلام تِھل۔۔


بظاہر اس مسجد کا کمراٹ کے قدرتی خوبصورتی سے کوئی تعلق نہیں ہے لیکن اس مسجد کو دیر کوہستان کی سب سے قدیم اور مشہور مسجد ہونے کا اعزاز حاصل ہے،اس لئے اسے دیکے بغیر آنا زیادتی ہوگی۔  یہ مسجد دیر کوہستان کے سب سے آخری گاوں تِھل میں واقع ہے۔ تِھل بازار سے آگے دریائے پنجگوڑہ کے عین کنارے واقع اس مسجد کے دو حصے ہیں، بالائی منزل جستی چادروں سے 1999ء میں تعمیر کی گئی ہے۔ جبکہ زیریں حصہ 1865ء میں تعمیر کیا گیا ہےـ 1953 میں اس مسجد میں ہونے والے آتشزدگی کی وجہ سے اس کا ایک حصہ متاثر ہوا۔ جس کو مقامی لوگوں نے دوبارہ تعمیر کیا۔ اس مسجد کی خاص بات یہ ہے کہ سوائے چھت دیواروں کے باقی پوری مسجد دیار کی لکڑی سے بنی ہے، درختوں کے بڑے بڑے تنے ستونوں کے طور پر استعمال کئے گئے ہیں، دیواروں اور ستونوں پر کلہاڑی اور دیدہ زیب رنگوں سے آرائش کی گئی ہے کہ آج کے مشینی دور کا انسان حیران ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ یاد رہے اس وقت لکڑی کاٹنے کی مشین آری وغیرہ نہیں تھے۔ مقامی لوگوں نے اپنے قدیم آوزاروں سے دیواروں اور ستونوں پر بہت ہی خوبصورت کنندہ کاری کی ہے۔ دریائے پنجگوڑہ کے کنارے واقع داردی فن تعمیر کے اس شاندار نمونے کو دیکھنے کے لئے ہر سال ہزاروں لوگ آتے ہیں ـ مسجد میں تصویر کھینچے پر کوئی پابندی نہیں ہے ۔۔


2: کوتگل آبشار ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


تِھل بازار سے نکل کر کمراٹ کی طرف جاتے ہوئے راستے میں ایک چڑھائی آتی ہے، ساتھ میں دو چار دکانیں ہیں، آگے جا کر ایف سی کی چیک پوسٹ آتی ہے، دراصل کمراٹ صرف اس جگہ کا نام ہے۔ پوری وادی کو کمراٹ کا نام باہر کے لوگوں نے دیا ہے۔ ایف سی چیک پوسٹ سے آگے والے علاقے کو سری مئی کہا جاتا ہے جہاں ہر سال کمراٹ فیسٹول منعقد ہوتا ہے۔ اس سے آگے روئی شئی کا میدان آتا ہے، جہاں اس ہموار میدان کا اختتام ہوتا ہے وہی سیدھے ہاتھ پر کوتگل ابشار بلندی سے گرتا ہے۔ یہ بالکل مین روڈ سے نظر آتا ہے، اس ابشار کو دیکھنے کے لئے آپ کو تھوڑے دور تک پیدل جانا پڑے گا۔ کم سے کم آدھا گھنٹہ آپ کو پیدل ہموار راستے پر جانا پڑے گا، دور سے یہ ایک عام سا جھرنا نظر آتا ہے لیکن نزدیک پہنچنے کے بعد پتہ چلتا ہے کہ یہ ایک حسین اور سحر انگیز ابشار ہے۔۔۔۔۔۔


3 : لال گاہ آبشار ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


لال گاہ ابشار کمراٹ ویلی کا سب سے مشہور ابشار ہے، اونچائی سے گرنے والا اس ابشار کا سرد برفیلا پانی اونچے برف پوش پہاڑوں پر موجود گلیشئیر سے پگھل کر آتا ہے۔ صبح کے وقت اس کی روانی دیکھنے لائق ہوتی ہے، سرد برفیلا پانی جب اونچائی سے گر کر راستے میں پتھروں سے پٹخ کر جب زور سے زمین پر گرتا ہے تو اس خوش کن نظارے سے انسان مسحور ہو کر رہ جاتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


4 : کالا پانی ( کالا چشمہ ) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


کالا چشمہ جسے کچھ لوگ کالا پانی بھی کہتے ہیں، کمراٹ میں واقع ایک چشمے کا نام ہے۔ جس کا پانی ہلکا سا کالا نظر آتا ہے جس کی وجہ سے اسے کالا چشمہ کہتے ہیں۔ مقامی کوہستانی زبان ( گاوری داردی ) میں اسے کیشین دیرا اوس یعنی کالے پتھروں کا چشمہ کہتے ہیں۔ لفظ دیر گاوری زبان میں بڑے بڑے پتھروں کے لئے مستعمل ہے، یہ بڑے بڑے کالے پتھر اس چشمے کے ارگرد موجود ہیں جس کی وجہ سے چشمے کا پانی کالا نظر آتا ہے ورنہ نہ تو اس کا پانی کالا ہے اور نہ اس کانام کالا پانی ہے ۔۔


5: نبل


کالا پانی کےسامنے والے علاقے کو نبل کہتے ہیں، یہاں دیار کےگھنے جنگل ، وسیع و عریض سرسبز میدان  ہے۔۔


6 : دوجنگا

دوجنگا کمراٹ کا آخری مقام ہے جہاں تک گاڑی جاسکتی ہے۔ اس سے آگے روڈ ختم ہوجاتا ہے اور مزید آگے پیدل جانا پڑتا ہے۔ دوجنگا کا ہمارا علاقائی تاریخ میں بہت اہم کردار ہے، ہماری لوک کہانیوں کے مطابق اس دوجنگا سے آگے خزان کوٹ کا مقام ہمارے آباء واجداد کی آخری پناہ گاہ تھی۔ کہتے ہیں کہ جب دشمن ( مسلمان مبلغین اور ان کا مسلح لشکر ) کا زور بڑھ گیا تو مقامی لوگوں نے زیریں علاقوں سے نقل مکانی کرکے خزان کوٹ کے گھنے جنگل میں بستی بسائی اور یہاں رہنے لگےـ اسی دوجنگا کے قریب بتوٹ کے میدان میں مقامی لوگوں نے اپنے مذہب اور اپنی دھرتی کو بچانے کے لئے آخری فیصلہ کن جنگ لڑی تھی، مقامی لوک کہانیوں کے مطابق مقامی کوہستانی ( گاوری دردی) قبائل نے دشمن کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ لیکن ناکافی اسلحے اور دشمن کی زیادہ تعداد کی وجہ سے مغلوب ہوگئےـ کہا جاتا ہے کہ اس جنگ میں یہاں صدیوں سے مقیم قدیم  داردیک مذہب کے پیروکار کوہستانی لوگ زیادہ ترمارے گئے۔ جو بچ گئے انہیں پکڑا گیا، کچھ بھاگ گئے اور کمراٹ کے ان گھنے جنگلات میں کھو گئے۔ اگر آپ نے خزان کوٹ دیکھنا ہے تو دوجنگا سے تقریباً پندرہ بیس منٹ کے فاصلے پر ہے، راستے میں ایک چھوٹا سا جنگلے والا رنگین پل آئے گا، اس پل کو جیسے ہی کراس کرو تو راستہ دو حصوں میں تقسیم ہوتا ہے، سیدھے ہاتھ والا راستہ روشن بانال، جارکھور بانال اور کونڈل بانال سے ہوتے ہوئے سوات کوہستان کے علاقے شاہی باغ کی طرف نکلتا ہے۔ اور ناک کے سیدھ میں اگر جاو گے تو آگے خزان کوٹ کا علاقہ شروع ہوتا ہے، اس سے آگے راستے میں تھوڑی سی اونچائی پر چڑھنے کے بعد چھاروٹ بانال کا علاقہ شروع ہوتا ہے، بانال ہم داردی گاوری لوگ موسم گرما کے چراگاہ کو کہتے ہیں، چھاروٹ بنال میں راستہ پھر دو حصوں میں تقسیم ہوجاتا ہے، سیدھا راستہ ایز گلو بانال، گورشی بانال شازور بانال اور پھر شازور جھیل تک جاتا ہے، پھر وہاں سے آگے چترال کے علاقوں کی طرف نکلتا ہے۔ دوسرا راستہ کاشکیکن پاس سے ہوتے ہوئے چترال کے علاقوں کی طرف نکلتا ہے، کاشکین پاس ایک قدیم راستہ ہے جسے ہمارے لوگ چترال جانے کےلئے صدیوں سے استعمال کرتے رھے ہیں۔


 بعض دوست جاز بانڈہ کو بھی وادی کمراٹ کا حصہ سمجھتے ہیں۔ لیکن درحقیقت جاز بانڈہ الگ علاقہ ہے۔


دیر کوہستان کے مقامی لوگ داردی گاوری ہیں، یہاں مقامی گاوری زبان کے علاوہ پشتو بھی بولی جاتی ہے، مقامی لوگ اپنی پہچان کوہستانی نام سے کراتے ہیں لیکن یہ ان کی قبیلے یا قوم کا نام نہیں ہے، یہ ایسا ہے جیسے لاہور کے رہنے والے اپنے آپ کو لاہوری کہتے ہیں۔ ہم لوگ داردی گاوری ہیں اور گاوری زبان بولتے ہیں، گاوری زبان داردی زبانوں کے کوہستانی شاخ سے تعلق رکھتی ہے، یہ ایک ہند آریائی زبان ہے جو دیر کوہستان کے علاوہ سوات کوہستان کے علاقے کالام اور اس کے آس پاس کی وادیوں میں بھی بولی جاتی ہے۔ مقامی لوگ انتہائی مہمان نواز ہیں۔ باپ دادا سے ہمیں دوسروں چیزوں کے ساتھ ساتھ مہمان نوازی بھی وراثت میں ملتی ہے۔  کمراٹ میں آپ کہیں بھی اکیلے یا اپنی فیملی کے ساتھ جا سکتے ہیں۔ کسی پر بھی کہیں بھی کوئی روک ٹوک نہیں ہے، کسی بھی ہنگامی حالت میں کسی بھی گھر پر دستک دو آپ کو وہاں سے بھر پور مدد ملی گی، یہ ایک پرامن اور پر سکون علاقہ ہے۔ ہم دیر کوہستان آنے والے دنیا کے ہر پر امن مہمان کو دل کی گہرائیوں سے خوش آمدید کہتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ ہندوراج کے دامن میں واقع ہماری یہ چھوٹی سی جنت کمراٹ آپ کو مایوس نہیں کریگی۔


سوات کالام کی سیاحتی اور حسین مقام جنت نظیر وادی اتروڑ میں آپ کو بہت سارے ایسے مقامات ملیں گے جنہیں بہت کم لوگ دیکھ پائے ہیں۔ یہاں کی بہترین جگہوں میں شامل ہیں:


شاھی باغ

باڈگوی ٹاپ

کنڈول جھیل

سپین خوڑ جھیل

خڑخڑی جھیل

پری جھیل

آزمس بانڈا

دیساں بانڈا

میدان بانڈا

اور بہت سے دیگر حسین مقامات 

یہاں آپ کو وادی اتروڑ کے دلکش نظاروں سے لطف اندوز ہونے کا موقع بھی ملے گا۔ آئیں اور اس خوبصورت وادی کی سیر کریں، جو قدرت کے حسین مناظر اور ٹھنڈی ہواؤں کا گہوارہ ہے۔ یہاں کے نظارے آپ کو سکون اور راحت کا احساس دلائیں گے، اور آپ کی تعطیلات کو یادگار بنائیں گے

شاہراہ قراقرم -محض ایک سڑک نہیں !Karakoram Highway - not just a roa

! شاہراہ قراقرم -محض ایک سڑک نہیں 

اس عظیم الشان سڑک کی تعمیر کا آغاز 1966 میں ہوا اور تکمیل 1978 میں ہوئی۔ شاہراہ قراقرم کی کُل لمبائی 1,300 کلومیٹر ہے جسکا 887 کلو میٹر حصہ پاکستان میں ہے اور 413 کلومیٹر چین میں ہے۔ یہ شاہراہ پاکستان میں حسن ابدال سے شروع ہوتی ہے اور ہری پور ہزارہ, ایبٹ آباد, مانسہرہ, بشام, داسو, چلاس, جگلوٹ, گلگت, ہنزہ نگر, سست اور خنجراب پاس سے ہوتی ہوئی چائنہ میں کاشغر کے مقام تک جاتی ہے۔

اس سڑک کی تعمیر نے دنیا کو حیران کر دیا کیونکہ ایک عرصے تک دنیا کی بڑی بڑی کمپنیاں یہ کام کرنے سے عاجز رہیں۔ ایک یورپ کی مشہور کمپنی نے تو فضائی سروے کے بعد اس کی تعمیر کو ناممکن قرار دے دیا تھا۔ موسموں کی شدت, شدید برف باری اور لینڈ سلائڈنگ جیسے خطرات کے باوجود اس سڑک کا بنایا جانا بہرحال ایک عجوبہ ہے جسے پاکستان اور چین نے مل کر ممکن بنایا۔

ایک سروے کے مطابق اس کی تعمیر میں 810 پاکستانی اور 82 چینی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ رپورٹ کے مطابق شاہراہ قراقرم کے سخت اور پتھریلے سینے کو چیرنے کے لیے 8 ہزار ٹن ڈائنامائیٹ استعمال کیا گیا اور اسکی تکمیل تک 30 ملین کیوسک میٹر سنگلاخ پہاڑوں کو کاٹا گیا۔ 

یہ شاہراہ کیا ہے؟ بس عجوبہ ہی عجوبہ!

کہیں دلکش تو کہیں پُراسرار, کہیں پُرسکون تو کہیں بل کھاتی شور مچاتی, کہیں سوال کرتی تو کہیں جواب دیتی۔۔۔۔۔

یہ سڑک اپنے اندر سینکڑوں داستانیں سموئے ہوئے ہے, محبت, نفرت, خوف, پسماندگی اور ترقی کی داستانیں!!

میں نے کہیں پڑھا تھا کہ 

"انقلاب فکر و شعور کے راستے آیا کرتے ہیں لیکن گلگت بلتستان کا انقلاب تو سڑک کے راستے آیا"

شاہراہ پر سفر کرتے ہوئے آپ کا تجسس بڑھتا ہی جاتا ہے کبھی پہاڑوں کے پرے کیا ہے یہ دیکھنے کا تجسس تو کبھی یہ جاننے کا تجسس کہ جب یہ سڑک نہیں تھی تو کیا تھا؟ کیسے تھا؟ اسی سڑک کنارے صدیوں سے بسنے والے لوگوں کی کہانیاں سننے کا تجسس تو کبھی سڑک کے ساتھ ساتھ پتھروں پر سر پٹختے دریائے سندھ کی تاریخ جاننے کا تجسس !!

شاہراہ قراقرم کا نقطہ آغاز ضلع ہزارہ میں ہے جہاں کے ہرے بھرے نظارے اور بارونق وادیاں "تھاکوٹ" تک آپ کا ساتھ دیتی ہیں۔

تھاکوٹ

تھاکوٹ سے دریائے سندھ بل کھاتا ہوا شاہراہ قراقرم کے ساتھ ساتھ جگلوٹ تک چلتا ہے پھر سکردو کی طرف مُڑ جاتا ہے۔

تھاکوٹ کے بعد کوہستان کا علاقہ شروع ہوجاتا ہے جہاں جگہ جگہ دور بلندیوں سے اترتی پانی کی ندیاں سفر کو یادگار اور دلچسپ بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔کوہستان کے بعد چلاس کا علاقہ شروع ہوتا ہے جوکہ سنگلاخ پہاڑوں پر مشتمل علاقہ ہے۔ چلاس ضلع دیا میر کا ایک اہم علاقہ ہے اسکو گلگت بلتستان کا دروازہ بھی کہا جاتا ہے۔ ناران سے بذریعہ بابو سر ٹاپ بھی چلاس تک پہنچا جا سکتا ہے۔ چلاس کے بعد شاہراہ قراقرم نانگا پربت کے گرد گھومنے لگ جاتی ہے اور پھر رائے کوٹ کا پُل آجاتا ہے یہ وہی مقام ہے جہاں سے فیری میڈوز اور نانگا پربت بیس کیمپ جانے کے لیے جیپیں کرائے پر ملتی ہیں۔ 

رائے کوٹ کے بعد نانگا پربت, دریائے سندھ اور شاہراہ قراقرم کا ایک ایسا حسین امتزاج بنتا ہے کہ جو سیاحوں کو کچھ وقت کے لیے خاموش ہونے پر مجبور کر دیتا ہے۔

اس کے بعد گلگت ڈویژن کا آغاز ہوجاتا ہے جس کے بعد پہلا اہم مقام جگلوٹ آتا ہے جگلوٹ سے استور, دیوسائی اور سکردو بلتستان کا راستہ جاتا ہے۔ جگلوٹ کے نمایاں ہونے میں ایک اور بات بھی ہے کہ یہاں پر دنیا کے تین عظیم ترین پہاڑی سلسلے کوہ ہمالیہ, کوہ ہندوکش اور قراقرم اکھٹے ہوتے ہیں اور دنیا میں ایسی کوئی جگہ نہیں جہاں تین بڑے سلسلے اکھٹے ہوتے ہوں۔

جگلوٹ کے بعد شمالی علاقہ جات کے صدر مقام گلگت شہر کا آغاز ہوتا ہے جو تجارتی, سیاسی اور معاشرتی خصوصیات کے باعث نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔ نلتر, اشکومن, غذر اور شیندور وغیرہ بذریعہ جیپ یہیں سے جایا جاتا ہے۔ 

گلگت سے آگے نگر کا علاقہ شروع ہوتا ہے جس کی پہچان راکا پوشی چوٹی ہے۔ آپکو اس خوبصورت اور دیوہیکل چوٹی کا نظارہ شاہراہ قراقرم پر جگہ جگہ دیکھنے کو ملے گا۔ 

نگر اور ہنزہ شاہراہ قراقرم کے دونوں اطراف میں آباد ہیں۔ یہاں پر آکر شاہراہ قراقرم کا حُسن اپنے پورے جوبن پر ہوتا ہے میرا نہیں خیال کہ شاہراہ کے اس مقام پر پہنچ کر کوئی سیاح حیرت سے اپنی انگلیاں دانتوں میں نا دباتا ہو۔ "پاسو کونز" اس بات کی بہترین مثال ہیں۔

ہنزہ اور نگر کا علاقہ نہایت خوبصورتی کا حامل ہے۔ بلند چوٹیاں, گلیشیئرز, آبشاریں اور دریا اس علاقے کا خاصہ ہیں۔ اس علاقے کے راکاپوشی, التر, بتورہ, کنیانگ کش, دستگیل سر اور پسو نمایاں پہاڑ ہیں۔

عطاآباد کے نام سے 21 کلومیٹر لمبائی رکھنے والی ایک مصنوعی لیکن انتہائی دلکش جھیل بھی ہے جو کہ پہاڑ کے گرنے سے وجود میں آئی۔

ہنزہ کا علاقہ "سست" پاک چین تجارت کے حوالے سے مشہور ہے اور یہ چائنہ سے درآمد اشیاء کی مارکیٹ ہے۔ 

سست کے بعد شاہراہ قراقرم کا پاکستان میں آخری مقام خنجراب پاس آتا ہے۔

سست سے خنجراب تک کا علاقہ بے آباد, دشوار پہاڑوں اور مسلسل چڑھائی پر مشتمل ہے۔ خنجراب پاس پر شاہراہ قراقرم کی اونچائی 4,693 میٹر ہے اسی بنا پر اسکو دنیا کے بلند ترین شاہراہ کہا جاتا ہے۔ خنجراب میں دنیا کے منفرد جانور پائے جاتے ہیں جس میں مارکوپولو بھیڑیں, برفانی چیتے, مارموٹ, ریچھ, یاک, مارخور اور نیل گائے وغیرہ شامل ہیں۔

اسی بنا پر خنجراب کو نیشنل پارک کا درجہ مل گیا ہے۔

اس سڑک پر آپکو سرسبز پہاڑوں کے ساتھ ساتھ پتھریلے و بنجر پہاڑی سلسلے اور دیوقامت برفانی چوٹیوں, دریاؤں کی بہتات, آبشاریں, چراگاہیں اور گلیشیئر سمیت ہر طرح کے جغرافیائی نظارے دیکھنے کو ملتے ہیں جو نا صرف آپکا سفر خوبصورت بناتے ہیں بلکہ آپ کے دل و دماغ پر گہرا اثر چھوڑتے ہیں۔

شاہراہِ قراقرم محض ایک سڑک نہیں ہے
بلکہ یہ دنیا کا آٹھواں عجوبہ ہے,

یہ تہذیب و تمدن کی امین ہے, یہ پسماندگی سے نکلنے کا زریعہ ہے, یہ ہر سال ہزاروں سیاحوں کی سیاحت کی پیاس بجھانے کا آلہ کار ہے, یہ محبت و دوستی کی علامت ہے, یہ سینکڑوں مزدوروں کے لہو سے سینچی وہ لکیر ہے جس نے پورے گلگت بلتستان کو تاریکیوں سے نکال کر روشنیوں کے سفر پر ڈالا۔ 

بلاشبہ یہ شاہراہ ایک شاہکار ہے۔

Best Places to Eat in Birmingham: Food Lover's Guide

  Discover the Best Places to Eat in Birmingham Birmingham, a vibrant city in the heart of England, is known for its rich cultural diversi...

web

Cars