KUMRAT Valley Complete Guideline کمراٹ ویلی جانے کے 2 راستے (مکمل راہنمائی)

 KUMRAT Valley Complete Guideline
کمراٹ ویلی جانے کے 2 راستے (مکمل راہنمائی)

💕


باڈگوئی پاس جو سطح سمندر سے 11558 فٹ بلندی پر واقع ھے ایک نہایت خوبصورت ترین راستہ ہے جو کہ کالام کو براستہ اتروڑ کمراٹ سے ملاتا ہے

 #باڈگوئی_ٹاپ اونچائی کے لحاظ سےقدرت نے نہایت خوبصورت مناظر ، برفانی گلیشئر ، قدآور درختوں اور میڈوز سے آپ کیلئے سجایا ھے۔


خیبر پختونخواہ کے ضلع دیر میں واقع وادی کمراٹ ایک قدرتی حسن سے مالامال علاقہ ہے ۔

 کمراٹ ویلی آنے  کے لئے سب سے پہلے مردان شہر  آنا ہوگا، اگر آپ پنجاب کے طرف سے آرہے ہیں تو آپ کو اسلام آباد سے براستہ موٹروے سیدھا چک درہ انٹرچینج آنا ہوگا، اگر بذریعہ ھائی وے یا بائیک سے آرہے ہیں تو آپ کو پشاور کے قریب مردان کی طرف مڑنا ھو گا۔ مردان ٹو کمراٹ تھل روزانہ کے بنیاد پر لوکل گاڑیاں بھی چلتی ہے، آپ کسی بھی لوکل گاڑی میں بیٹھ کر آرام سے تھل کمراٹ پہنچ سکتے ہیں، لیکن اگر آپ اپنے بائیک پر آ رہے ہیں تو پھر مردان سے آپ نے ملاکنڈ کے طرف جانا ہوگا۔ ملاکنڈ کو کراس کرکے آگے بٹ خیلہ شہر آئے گا، اس سے آگے پھر چکدرہ نام کا ایک چھوٹا سا شہر آئے گا، وہاں روڈ دو حصوں میں تقسیم ہوجاتا ہے، 


1. ایک راستہ سوات کالام باڈگوئ کی طرف سے
2. دوسرا راستہ دیر بالا کی طرف سے نکلتا ہے۔ 


1.# اگر آپ نے سوات کالام - اتروڑ سے ھوتے ھوئے باڈگوئ پاس کی طرف سے آنا ہے تو پھر منگورہ سوات کے طرف جانا ہوگا، چکدرہ سے منگورہ سوات کے طرف نکلنے کے بعد سوات کوہستان کے صدر مقام بحرین آنا ہوگا۔  بحرین سے پھر آگے کالام اور پھر اتروڑ سے ہوکر باڈگوئی پاس کے ذریعے آپ تھل پہنچ سکتے ہیں، چکدرہ سے لے کر کالام تک ایک بہترین روڈ بن چکی ھے۔ اور کالام سے آگے یعنی باڈگوئی پاس کا راستہ جیپ ٹریک ھے، اگر آپ کے پاس اپنی جیپ ھے تو ٹھیک ورنہ اپنی گاڑی کالام میں پارک کرکے وہاں سے جیپ ہائر کرکے تھل پہنچنا ہوگا۔ چکدرہ سے لے کر تھل تک راستے میں آپ مدین، بحرین، کالام اتروڑ اور پھر آگے دشت لیلیٰ باڈگوئی جیسے خوبصورت علاقوں سے گذر کر تھل پہنچیں گے ۔ اگر کسی کے پاس وقت اور 4x4 فور بائی فور گاڑی یا بائیک ھو تو یہ راستہ بہت پر لطف ھے۔


2 .# اگر آپ نے دیر کےطرف سے آنا ہے تو پھر آپ نے سوات کے طرف جانے کے بجائے دیر اپر کے طرف آنا ہوگا، راستے میں تیمرگرہ شہر آئے گا، یہاں سے بھی تھل کمراٹ کی لوکل گاڑی آرام سے مل سکتی ہے، تیمر گرہ سے آپ نے اپر دیر کے طرف جانا ہوگا، راستے میں چھوٹے چھوٹے شہر،  قصبے آئیں گے لیکن آپ نے سیدھا چکیاتن پہنچنا ہے۔ چکیاتن دیر شہر  سے تقریباٰ 5 یا چھ کلومیٹر پہلے آتا ہے، یہاں پل کراس کرنے سے پہلے ایف سی کی ایک چیک پوسٹ ہے ۔ چیک پوسٹ سے آگے سیدھے ہاتھ پر ایک بڑا گیٹ سا بنا ہوا ہے جس کے اوپر باب کمراٹ لکھا ہوگا ۔ آپ نے اس گیٹ سے گذر گر دیر کوہستان کے طرف آنا ہوگا، آگے شرینگل نام کا ایک چھوٹا سا قصبہ آئے گا، چکیاتن سے لے کر شرینگل تک  سڑک کی حالت بہت اچھی  ھے، شرینگل سے آگے تھل تک روڈ اگرچہ اتنا بہتر نہیں ہے لیکن کار وغیرہ آرام سے آسکتی ہے۔ شرینگل سے آگے راجکوٹ ( پاتراک ) نام کا ایک گاوں آئے گا۔ اس کے بعد  جار ( بیاڑ ) آئے گا۔ پھر آگے جاکر پیود پھر کلکوٹ اور پھر تھل آئے گا، تھل دیر کوہستان کا سب سے آخری گاوں ہے اس سے آگے کمراٹ کا علاقہ شروع ہوتا۔ تھل میں  ضروریات زندگی کی تمام اشیاء دستیاب ہیں ۔ تھل میں اپنی کار پارک کرکے آپ نے کمراٹ کے لئے جیپ ہائر کرنی ہوگی۔ کمراٹ کے جنگل میں کئی ہوٹلز ہیں ، آپ چاہئے تو کسی ہوٹل میں آرام کر سکتے ہیں ، چاہئے تو اپنا کیمپ بھی لگا سکتے ہیں ، ویسے ٹینٹ ہوٹلز بھی بہت سارے ہیں جہاں آپ بے فکر ہوکر رات گذار سکتے ہیں ۔۔

ویسے تو پوری وادی کمراٹ دیکھنے کی قابل ہے لیکن کچھ مقامات ایسے ہیں جنہیں دیکھے بغیر واپس آنا میرے خیال میں کمراٹ کی حسن کی توہین ہوگی۔ 


1 : جامع مسجد دارالاسلام تِھل۔۔


بظاہر اس مسجد کا کمراٹ کے قدرتی خوبصورتی سے کوئی تعلق نہیں ہے لیکن اس مسجد کو دیر کوہستان کی سب سے قدیم اور مشہور مسجد ہونے کا اعزاز حاصل ہے،اس لئے اسے دیکے بغیر آنا زیادتی ہوگی۔  یہ مسجد دیر کوہستان کے سب سے آخری گاوں تِھل میں واقع ہے۔ تِھل بازار سے آگے دریائے پنجگوڑہ کے عین کنارے واقع اس مسجد کے دو حصے ہیں، بالائی منزل جستی چادروں سے 1999ء میں تعمیر کی گئی ہے۔ جبکہ زیریں حصہ 1865ء میں تعمیر کیا گیا ہےـ 1953 میں اس مسجد میں ہونے والے آتشزدگی کی وجہ سے اس کا ایک حصہ متاثر ہوا۔ جس کو مقامی لوگوں نے دوبارہ تعمیر کیا۔ اس مسجد کی خاص بات یہ ہے کہ سوائے چھت دیواروں کے باقی پوری مسجد دیار کی لکڑی سے بنی ہے، درختوں کے بڑے بڑے تنے ستونوں کے طور پر استعمال کئے گئے ہیں، دیواروں اور ستونوں پر کلہاڑی اور دیدہ زیب رنگوں سے آرائش کی گئی ہے کہ آج کے مشینی دور کا انسان حیران ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ یاد رہے اس وقت لکڑی کاٹنے کی مشین آری وغیرہ نہیں تھے۔ مقامی لوگوں نے اپنے قدیم آوزاروں سے دیواروں اور ستونوں پر بہت ہی خوبصورت کنندہ کاری کی ہے۔ دریائے پنجگوڑہ کے کنارے واقع داردی فن تعمیر کے اس شاندار نمونے کو دیکھنے کے لئے ہر سال ہزاروں لوگ آتے ہیں ـ مسجد میں تصویر کھینچے پر کوئی پابندی نہیں ہے ۔۔


2: کوتگل آبشار ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


تِھل بازار سے نکل کر کمراٹ کی طرف جاتے ہوئے راستے میں ایک چڑھائی آتی ہے، ساتھ میں دو چار دکانیں ہیں، آگے جا کر ایف سی کی چیک پوسٹ آتی ہے، دراصل کمراٹ صرف اس جگہ کا نام ہے۔ پوری وادی کو کمراٹ کا نام باہر کے لوگوں نے دیا ہے۔ ایف سی چیک پوسٹ سے آگے والے علاقے کو سری مئی کہا جاتا ہے جہاں ہر سال کمراٹ فیسٹول منعقد ہوتا ہے۔ اس سے آگے روئی شئی کا میدان آتا ہے، جہاں اس ہموار میدان کا اختتام ہوتا ہے وہی سیدھے ہاتھ پر کوتگل ابشار بلندی سے گرتا ہے۔ یہ بالکل مین روڈ سے نظر آتا ہے، اس ابشار کو دیکھنے کے لئے آپ کو تھوڑے دور تک پیدل جانا پڑے گا۔ کم سے کم آدھا گھنٹہ آپ کو پیدل ہموار راستے پر جانا پڑے گا، دور سے یہ ایک عام سا جھرنا نظر آتا ہے لیکن نزدیک پہنچنے کے بعد پتہ چلتا ہے کہ یہ ایک حسین اور سحر انگیز ابشار ہے۔۔۔۔۔۔


3 : لال گاہ آبشار ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


لال گاہ ابشار کمراٹ ویلی کا سب سے مشہور ابشار ہے، اونچائی سے گرنے والا اس ابشار کا سرد برفیلا پانی اونچے برف پوش پہاڑوں پر موجود گلیشئیر سے پگھل کر آتا ہے۔ صبح کے وقت اس کی روانی دیکھنے لائق ہوتی ہے، سرد برفیلا پانی جب اونچائی سے گر کر راستے میں پتھروں سے پٹخ کر جب زور سے زمین پر گرتا ہے تو اس خوش کن نظارے سے انسان مسحور ہو کر رہ جاتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


4 : کالا پانی ( کالا چشمہ ) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


کالا چشمہ جسے کچھ لوگ کالا پانی بھی کہتے ہیں، کمراٹ میں واقع ایک چشمے کا نام ہے۔ جس کا پانی ہلکا سا کالا نظر آتا ہے جس کی وجہ سے اسے کالا چشمہ کہتے ہیں۔ مقامی کوہستانی زبان ( گاوری داردی ) میں اسے کیشین دیرا اوس یعنی کالے پتھروں کا چشمہ کہتے ہیں۔ لفظ دیر گاوری زبان میں بڑے بڑے پتھروں کے لئے مستعمل ہے، یہ بڑے بڑے کالے پتھر اس چشمے کے ارگرد موجود ہیں جس کی وجہ سے چشمے کا پانی کالا نظر آتا ہے ورنہ نہ تو اس کا پانی کالا ہے اور نہ اس کانام کالا پانی ہے ۔۔


5: نبل


کالا پانی کےسامنے والے علاقے کو نبل کہتے ہیں، یہاں دیار کےگھنے جنگل ، وسیع و عریض سرسبز میدان  ہے۔۔


6 : دوجنگا

دوجنگا کمراٹ کا آخری مقام ہے جہاں تک گاڑی جاسکتی ہے۔ اس سے آگے روڈ ختم ہوجاتا ہے اور مزید آگے پیدل جانا پڑتا ہے۔ دوجنگا کا ہمارا علاقائی تاریخ میں بہت اہم کردار ہے، ہماری لوک کہانیوں کے مطابق اس دوجنگا سے آگے خزان کوٹ کا مقام ہمارے آباء واجداد کی آخری پناہ گاہ تھی۔ کہتے ہیں کہ جب دشمن ( مسلمان مبلغین اور ان کا مسلح لشکر ) کا زور بڑھ گیا تو مقامی لوگوں نے زیریں علاقوں سے نقل مکانی کرکے خزان کوٹ کے گھنے جنگل میں بستی بسائی اور یہاں رہنے لگےـ اسی دوجنگا کے قریب بتوٹ کے میدان میں مقامی لوگوں نے اپنے مذہب اور اپنی دھرتی کو بچانے کے لئے آخری فیصلہ کن جنگ لڑی تھی، مقامی لوک کہانیوں کے مطابق مقامی کوہستانی ( گاوری دردی) قبائل نے دشمن کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ لیکن ناکافی اسلحے اور دشمن کی زیادہ تعداد کی وجہ سے مغلوب ہوگئےـ کہا جاتا ہے کہ اس جنگ میں یہاں صدیوں سے مقیم قدیم  داردیک مذہب کے پیروکار کوہستانی لوگ زیادہ ترمارے گئے۔ جو بچ گئے انہیں پکڑا گیا، کچھ بھاگ گئے اور کمراٹ کے ان گھنے جنگلات میں کھو گئے۔ اگر آپ نے خزان کوٹ دیکھنا ہے تو دوجنگا سے تقریباً پندرہ بیس منٹ کے فاصلے پر ہے، راستے میں ایک چھوٹا سا جنگلے والا رنگین پل آئے گا، اس پل کو جیسے ہی کراس کرو تو راستہ دو حصوں میں تقسیم ہوتا ہے، سیدھے ہاتھ والا راستہ روشن بانال، جارکھور بانال اور کونڈل بانال سے ہوتے ہوئے سوات کوہستان کے علاقے شاہی باغ کی طرف نکلتا ہے۔ اور ناک کے سیدھ میں اگر جاو گے تو آگے خزان کوٹ کا علاقہ شروع ہوتا ہے، اس سے آگے راستے میں تھوڑی سی اونچائی پر چڑھنے کے بعد چھاروٹ بانال کا علاقہ شروع ہوتا ہے، بانال ہم داردی گاوری لوگ موسم گرما کے چراگاہ کو کہتے ہیں، چھاروٹ بنال میں راستہ پھر دو حصوں میں تقسیم ہوجاتا ہے، سیدھا راستہ ایز گلو بانال، گورشی بانال شازور بانال اور پھر شازور جھیل تک جاتا ہے، پھر وہاں سے آگے چترال کے علاقوں کی طرف نکلتا ہے۔ دوسرا راستہ کاشکیکن پاس سے ہوتے ہوئے چترال کے علاقوں کی طرف نکلتا ہے، کاشکین پاس ایک قدیم راستہ ہے جسے ہمارے لوگ چترال جانے کےلئے صدیوں سے استعمال کرتے رھے ہیں۔


 بعض دوست جاز بانڈہ کو بھی وادی کمراٹ کا حصہ سمجھتے ہیں۔ لیکن درحقیقت جاز بانڈہ الگ علاقہ ہے۔


دیر کوہستان کے مقامی لوگ داردی گاوری ہیں، یہاں مقامی گاوری زبان کے علاوہ پشتو بھی بولی جاتی ہے، مقامی لوگ اپنی پہچان کوہستانی نام سے کراتے ہیں لیکن یہ ان کی قبیلے یا قوم کا نام نہیں ہے، یہ ایسا ہے جیسے لاہور کے رہنے والے اپنے آپ کو لاہوری کہتے ہیں۔ ہم لوگ داردی گاوری ہیں اور گاوری زبان بولتے ہیں، گاوری زبان داردی زبانوں کے کوہستانی شاخ سے تعلق رکھتی ہے، یہ ایک ہند آریائی زبان ہے جو دیر کوہستان کے علاوہ سوات کوہستان کے علاقے کالام اور اس کے آس پاس کی وادیوں میں بھی بولی جاتی ہے۔ مقامی لوگ انتہائی مہمان نواز ہیں۔ باپ دادا سے ہمیں دوسروں چیزوں کے ساتھ ساتھ مہمان نوازی بھی وراثت میں ملتی ہے۔  کمراٹ میں آپ کہیں بھی اکیلے یا اپنی فیملی کے ساتھ جا سکتے ہیں۔ کسی پر بھی کہیں بھی کوئی روک ٹوک نہیں ہے، کسی بھی ہنگامی حالت میں کسی بھی گھر پر دستک دو آپ کو وہاں سے بھر پور مدد ملی گی، یہ ایک پرامن اور پر سکون علاقہ ہے۔ ہم دیر کوہستان آنے والے دنیا کے ہر پر امن مہمان کو دل کی گہرائیوں سے خوش آمدید کہتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ ہندوراج کے دامن میں واقع ہماری یہ چھوٹی سی جنت کمراٹ آپ کو مایوس نہیں کریگی۔


سوات کالام کی سیاحتی اور حسین مقام جنت نظیر وادی اتروڑ میں آپ کو بہت سارے ایسے مقامات ملیں گے جنہیں بہت کم لوگ دیکھ پائے ہیں۔ یہاں کی بہترین جگہوں میں شامل ہیں:


شاھی باغ

باڈگوی ٹاپ

کنڈول جھیل

سپین خوڑ جھیل

خڑخڑی جھیل

پری جھیل

آزمس بانڈا

دیساں بانڈا

میدان بانڈا

اور بہت سے دیگر حسین مقامات 

یہاں آپ کو وادی اتروڑ کے دلکش نظاروں سے لطف اندوز ہونے کا موقع بھی ملے گا۔ آئیں اور اس خوبصورت وادی کی سیر کریں، جو قدرت کے حسین مناظر اور ٹھنڈی ہواؤں کا گہوارہ ہے۔ یہاں کے نظارے آپ کو سکون اور راحت کا احساس دلائیں گے، اور آپ کی تعطیلات کو یادگار بنائیں گے

شاہراہ قراقرم -محض ایک سڑک نہیں !Karakoram Highway - not just a roa

! شاہراہ قراقرم -محض ایک سڑک نہیں 

اس عظیم الشان سڑک کی تعمیر کا آغاز 1966 میں ہوا اور تکمیل 1978 میں ہوئی۔ شاہراہ قراقرم کی کُل لمبائی 1,300 کلومیٹر ہے جسکا 887 کلو میٹر حصہ پاکستان میں ہے اور 413 کلومیٹر چین میں ہے۔ یہ شاہراہ پاکستان میں حسن ابدال سے شروع ہوتی ہے اور ہری پور ہزارہ, ایبٹ آباد, مانسہرہ, بشام, داسو, چلاس, جگلوٹ, گلگت, ہنزہ نگر, سست اور خنجراب پاس سے ہوتی ہوئی چائنہ میں کاشغر کے مقام تک جاتی ہے۔

اس سڑک کی تعمیر نے دنیا کو حیران کر دیا کیونکہ ایک عرصے تک دنیا کی بڑی بڑی کمپنیاں یہ کام کرنے سے عاجز رہیں۔ ایک یورپ کی مشہور کمپنی نے تو فضائی سروے کے بعد اس کی تعمیر کو ناممکن قرار دے دیا تھا۔ موسموں کی شدت, شدید برف باری اور لینڈ سلائڈنگ جیسے خطرات کے باوجود اس سڑک کا بنایا جانا بہرحال ایک عجوبہ ہے جسے پاکستان اور چین نے مل کر ممکن بنایا۔

ایک سروے کے مطابق اس کی تعمیر میں 810 پاکستانی اور 82 چینی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ رپورٹ کے مطابق شاہراہ قراقرم کے سخت اور پتھریلے سینے کو چیرنے کے لیے 8 ہزار ٹن ڈائنامائیٹ استعمال کیا گیا اور اسکی تکمیل تک 30 ملین کیوسک میٹر سنگلاخ پہاڑوں کو کاٹا گیا۔ 

یہ شاہراہ کیا ہے؟ بس عجوبہ ہی عجوبہ!

کہیں دلکش تو کہیں پُراسرار, کہیں پُرسکون تو کہیں بل کھاتی شور مچاتی, کہیں سوال کرتی تو کہیں جواب دیتی۔۔۔۔۔

یہ سڑک اپنے اندر سینکڑوں داستانیں سموئے ہوئے ہے, محبت, نفرت, خوف, پسماندگی اور ترقی کی داستانیں!!

میں نے کہیں پڑھا تھا کہ 

"انقلاب فکر و شعور کے راستے آیا کرتے ہیں لیکن گلگت بلتستان کا انقلاب تو سڑک کے راستے آیا"

شاہراہ پر سفر کرتے ہوئے آپ کا تجسس بڑھتا ہی جاتا ہے کبھی پہاڑوں کے پرے کیا ہے یہ دیکھنے کا تجسس تو کبھی یہ جاننے کا تجسس کہ جب یہ سڑک نہیں تھی تو کیا تھا؟ کیسے تھا؟ اسی سڑک کنارے صدیوں سے بسنے والے لوگوں کی کہانیاں سننے کا تجسس تو کبھی سڑک کے ساتھ ساتھ پتھروں پر سر پٹختے دریائے سندھ کی تاریخ جاننے کا تجسس !!

شاہراہ قراقرم کا نقطہ آغاز ضلع ہزارہ میں ہے جہاں کے ہرے بھرے نظارے اور بارونق وادیاں "تھاکوٹ" تک آپ کا ساتھ دیتی ہیں۔

تھاکوٹ

تھاکوٹ سے دریائے سندھ بل کھاتا ہوا شاہراہ قراقرم کے ساتھ ساتھ جگلوٹ تک چلتا ہے پھر سکردو کی طرف مُڑ جاتا ہے۔

تھاکوٹ کے بعد کوہستان کا علاقہ شروع ہوجاتا ہے جہاں جگہ جگہ دور بلندیوں سے اترتی پانی کی ندیاں سفر کو یادگار اور دلچسپ بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔کوہستان کے بعد چلاس کا علاقہ شروع ہوتا ہے جوکہ سنگلاخ پہاڑوں پر مشتمل علاقہ ہے۔ چلاس ضلع دیا میر کا ایک اہم علاقہ ہے اسکو گلگت بلتستان کا دروازہ بھی کہا جاتا ہے۔ ناران سے بذریعہ بابو سر ٹاپ بھی چلاس تک پہنچا جا سکتا ہے۔ چلاس کے بعد شاہراہ قراقرم نانگا پربت کے گرد گھومنے لگ جاتی ہے اور پھر رائے کوٹ کا پُل آجاتا ہے یہ وہی مقام ہے جہاں سے فیری میڈوز اور نانگا پربت بیس کیمپ جانے کے لیے جیپیں کرائے پر ملتی ہیں۔ 

رائے کوٹ کے بعد نانگا پربت, دریائے سندھ اور شاہراہ قراقرم کا ایک ایسا حسین امتزاج بنتا ہے کہ جو سیاحوں کو کچھ وقت کے لیے خاموش ہونے پر مجبور کر دیتا ہے۔

اس کے بعد گلگت ڈویژن کا آغاز ہوجاتا ہے جس کے بعد پہلا اہم مقام جگلوٹ آتا ہے جگلوٹ سے استور, دیوسائی اور سکردو بلتستان کا راستہ جاتا ہے۔ جگلوٹ کے نمایاں ہونے میں ایک اور بات بھی ہے کہ یہاں پر دنیا کے تین عظیم ترین پہاڑی سلسلے کوہ ہمالیہ, کوہ ہندوکش اور قراقرم اکھٹے ہوتے ہیں اور دنیا میں ایسی کوئی جگہ نہیں جہاں تین بڑے سلسلے اکھٹے ہوتے ہوں۔

جگلوٹ کے بعد شمالی علاقہ جات کے صدر مقام گلگت شہر کا آغاز ہوتا ہے جو تجارتی, سیاسی اور معاشرتی خصوصیات کے باعث نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔ نلتر, اشکومن, غذر اور شیندور وغیرہ بذریعہ جیپ یہیں سے جایا جاتا ہے۔ 

گلگت سے آگے نگر کا علاقہ شروع ہوتا ہے جس کی پہچان راکا پوشی چوٹی ہے۔ آپکو اس خوبصورت اور دیوہیکل چوٹی کا نظارہ شاہراہ قراقرم پر جگہ جگہ دیکھنے کو ملے گا۔ 

نگر اور ہنزہ شاہراہ قراقرم کے دونوں اطراف میں آباد ہیں۔ یہاں پر آکر شاہراہ قراقرم کا حُسن اپنے پورے جوبن پر ہوتا ہے میرا نہیں خیال کہ شاہراہ کے اس مقام پر پہنچ کر کوئی سیاح حیرت سے اپنی انگلیاں دانتوں میں نا دباتا ہو۔ "پاسو کونز" اس بات کی بہترین مثال ہیں۔

ہنزہ اور نگر کا علاقہ نہایت خوبصورتی کا حامل ہے۔ بلند چوٹیاں, گلیشیئرز, آبشاریں اور دریا اس علاقے کا خاصہ ہیں۔ اس علاقے کے راکاپوشی, التر, بتورہ, کنیانگ کش, دستگیل سر اور پسو نمایاں پہاڑ ہیں۔

عطاآباد کے نام سے 21 کلومیٹر لمبائی رکھنے والی ایک مصنوعی لیکن انتہائی دلکش جھیل بھی ہے جو کہ پہاڑ کے گرنے سے وجود میں آئی۔

ہنزہ کا علاقہ "سست" پاک چین تجارت کے حوالے سے مشہور ہے اور یہ چائنہ سے درآمد اشیاء کی مارکیٹ ہے۔ 

سست کے بعد شاہراہ قراقرم کا پاکستان میں آخری مقام خنجراب پاس آتا ہے۔

سست سے خنجراب تک کا علاقہ بے آباد, دشوار پہاڑوں اور مسلسل چڑھائی پر مشتمل ہے۔ خنجراب پاس پر شاہراہ قراقرم کی اونچائی 4,693 میٹر ہے اسی بنا پر اسکو دنیا کے بلند ترین شاہراہ کہا جاتا ہے۔ خنجراب میں دنیا کے منفرد جانور پائے جاتے ہیں جس میں مارکوپولو بھیڑیں, برفانی چیتے, مارموٹ, ریچھ, یاک, مارخور اور نیل گائے وغیرہ شامل ہیں۔

اسی بنا پر خنجراب کو نیشنل پارک کا درجہ مل گیا ہے۔

اس سڑک پر آپکو سرسبز پہاڑوں کے ساتھ ساتھ پتھریلے و بنجر پہاڑی سلسلے اور دیوقامت برفانی چوٹیوں, دریاؤں کی بہتات, آبشاریں, چراگاہیں اور گلیشیئر سمیت ہر طرح کے جغرافیائی نظارے دیکھنے کو ملتے ہیں جو نا صرف آپکا سفر خوبصورت بناتے ہیں بلکہ آپ کے دل و دماغ پر گہرا اثر چھوڑتے ہیں۔

شاہراہِ قراقرم محض ایک سڑک نہیں ہے
بلکہ یہ دنیا کا آٹھواں عجوبہ ہے,

یہ تہذیب و تمدن کی امین ہے, یہ پسماندگی سے نکلنے کا زریعہ ہے, یہ ہر سال ہزاروں سیاحوں کی سیاحت کی پیاس بجھانے کا آلہ کار ہے, یہ محبت و دوستی کی علامت ہے, یہ سینکڑوں مزدوروں کے لہو سے سینچی وہ لکیر ہے جس نے پورے گلگت بلتستان کو تاریکیوں سے نکال کر روشنیوں کے سفر پر ڈالا۔ 

بلاشبہ یہ شاہراہ ایک شاہکار ہے۔

Fakhar Zaman: The Rising Star of Pakistani Cricket

 In the realm of Pakistani cricket, few names shine as brightly as Fakhar Zaman's. From his humble beginnings to becoming a household name in international cricket, Fakhar's journey is nothing short of inspiring. Let's delve into the life of this cricketing sensation, exploring his early years and family life that shaped the man we cheer for to

 Early Life and Beginnings


Born on April 10, 1990, in Mardan, Khyber Pakhtunkhwa, Fakhar Zaman's tryst with cricket began in the streets of his hometown. Mardan, known for producing several cricketing talents, played a pivotal role in nurturing Fakhar's passion for the sport. Like many young boys in Pakistan, he started playing cricket with tape-ball cricket, dreaming of emulating his heroes on the

Rise to Stardom


Fakhar Zaman's breakthrough moment came during the 2017 ICC Champions Trophy held in England. His blistering century in the final against India played a pivotal role in Pakistan's triumph, etching his name in cricketing history. The left-handed opener's fearless approach and ability to dominate bowling attacks earned him instant acclaim worldwide.


Since then, Fakhar has been a consistent performer for Pakistan in limited-overs cricket, known for his aggressive stroke play and knack for turning the tide of matches single-handedly. His exploits in domestic T20 leagues further cemented his reputation as a formidable batsm

Family Life and Support System


Behind every successful athlete lies a strong support system, and Fakhar Zaman's journey is no exception. Raised in a modest family in Mardan, Fakhar credits his parents and siblings for their unwavering support throughout his career. Their encouragement and sacrifices enabled him to pursue his dreams of playing cricket at the highest level.


Fakhar's family remains his pillar of strength, celebrating his successes and providing solace during challenging times. Despite the demands of international cricket, he cherishes moments spent with loved ones, often attributing his achievements to their prayers and guidance.o

Conclusion


Fakhar Zaman's story is a testament to perseverance and dedication. From the streets of Mardan to stadiums around the world, he has captivated fans with his talent and charisma. As he continues to carve his legacy in Pakistani cricket, Fakhar remains an inspiration to aspiring cricketers and a pride of the nation.


In a sport where heroes are made through grit and determination, Fakhar Zaman stands tall—a beacon of hope for those who dare to dream. As he gears up for new challenges and triumphs, one thing is certain: the journey of this Pakistani cricket star is far from over.

why are 60 minutes in a hour

 

                   60 minutes and a minute into 60 seconds


The division of an hour into 60 minutes and a minute into 60 seconds can be traced back to the ancient civilizations that first divided the day into smaller parts. They used different numeral systems, specifically duodecimal (base 12) and sexagesimal (base 60)12.



👳👳👪👤👃✋👇

The Sumerians, who used these systems, may have chosen 60 as a base because it has many divisors, making calculations easier. They counted using the three segments on each of their fingers, excluding the thumb, to count to 12 on one hand and then used the five fingers on the other hand to multiply by 12 to reach 601.







The Babylonians, who inherited this system, defined a circle as having 360 degrees, possibly because a year was understood to have close to 360 days, or because the radius of a circle maps onto a circumscribed hexagon of six equilateral triangles, making 60 a convenient number for dividing a circle1.








Later, the Egyptians used sundials divided into 12 parts to measure the day, reflecting their use of the duodecimal system. This system was based on the 12 lunar cycles in a year or the 12 joints on each hand (excluding the thumb), which made it easy to count to 122.

The Greek astronomers adopted the Babylonian’s sexagesimal system for astronomical calculations, and for convenience, they further divided an hour into 60 minutes and each minute into 60 seconds3.




💗💕💔💓



So, the 60-minute hour and the 60-second minute are the result of a historical blend of counting systems and astronomical observations from ancient civilizations.

Switzerland of Pakistan: 15 Must-Visit Places in Swat Valley

                                             Switzerland of Pakistan

Swat Valley, often called the "Switzerland of Pakistan," is a paradise for nature enthusiasts, history buffs, and adventure seekers. With its lush green landscapes, snow-capped peaks, and rich cultural heritage, Swat offers an unforgettable experience. Here are 15 places in Swat Valley that you must add to your travel itinerary, complete with a suggested route for a comprehensive tour.

 

                                                   1. Mingora: The Heart of Swat

Details:

Mingora is the largest city in Swat and serves as the commercial and administrative hub. Start your journey here to explore bustling bazaars, enjoy local cuisine, and get a feel for the vibrant culture of Swat. Don’t miss the bustling Mingora Bazaar, where you can shop for traditional handicrafts and souvenirs.

Route:

Starting Point: Mingora

How to Reach: Travel by road from Islamabad to Mingora (approx. 5-6 hours).

Stay: Numerous hotels and guesthouses are available.

 

2. Saidu Sharif: A Historical Gem

Details:

The administrative capital of Swat, Saidu Sharif, is rich in history and culture. Visit the Swat Museum to delve into the region's Gandhara heritage, showcasing a remarkable collection of artifacts from the Buddhist era. The White Palace (Sufed Mahal) is another architectural marvel worth visiting.

 

Route:

From Mingora to Saidu Sharif

Distance: 3 km (approx. 10 minutes by car).

Stay: Accommodations in Saidu Sharif are available for a comfortable stay.

 

3. Malam Jabba: A Winter Wonderland

 

Details:

Malam Jabba is famous for its ski resort, offering a fantastic winter sports experience. In summer, the area transforms into a lush green retreat perfect for hiking and chairlift rides, providing breathtaking views of the surrounding mountains.

 

Route:

From Saidu Sharif to Malam Jabba**

Distance: 38 km (approx. 1.5 hours by car).

Stay: Ski resorts and hotels are available.

 

4. Kalam Valley: Nature’s Paradise

 

Details:

Kalam Valley is renowned for its stunning landscapes, lush meadows, and dense forests. It is a popular destination for trekking and camping. Explore the scenic beauty of the valley, visit the Ushu Forest, and take a boat ride on the serene Mahodand Lake.

 

Route:

From Malam Jabba to Kalam Valley

Distance: 95 km (approx. 4 hours by car).

Stay: Numerous hotels and guesthouses.

 

5. Mahodand Lake: A Pristine Oasis

 

Details:

In the Ushu Valley's upper reaches, Mahodand Lake is a pristine body of water surrounded by snow-capped peaks and pine forests. The lake is perfect for fishing, boating, and picnicking, offering a tranquil escape from the hustle and bustle.

 

Route:

From Kalam Valley to Mahodand Lake

Distance: 35 km (approx. 2 hours by jeep or 4x4).

Stay: Camp by the lake or return to Kalam for accommodation.

 

6. Bahrain: A Riverside Retreat

 

Details:

Bahrain, a small town on the banks of the Swat River, is known for its beautiful river views and as a base for trekking. The town's name, meaning "two rivers," is derived from the confluence of the Daral and Swat rivers. Enjoy the soothing sound of flowing water and explore nearby trails.

 

Route:

From Mahodand Lake to Bahrain

Distance: 62 km (approx. 3 hours by car).

Stay: Hotels and guesthouses are available.

 

7. Madyan: Trout Fishing Haven

 

Details:

Madyan is a charming hill town famous for its trout fish and pleasant weather. The town is a popular spot for fishing enthusiasts and offers stunning views of the surrounding hills. Enjoy a fresh trout meal at one of the local eateries for a true taste of Swat.

 

Route:

From Bahrain to Madyan

Distance: 10 km (approx. 20 minutes by car).

Stay: Local hotels and guesthouses.

 

8. Ushu Forest: A Woodland Wonderland

 

Details:

The Ushu Forest near Kalam is a dense, enchanting forest offering serene natural beauty and numerous trekking opportunities. Hike through the forest to discover hidden waterfalls, clear streams, and the vibrant flora and fauna of the region.

 

Route:

From Madyan to Ushu Forest

Distance: 35 km (approx. 2 hours by car).

Stay: Return to Kalam for accommodation.

9. Fizagat Park: Family Fun by the River

 

Details:

Located near Mingora, Fizagat Park is ideal for family picnics and outdoor activities. The park, situated along the Swat River, offers boating, horse riding, and beautiful garden spaces where you can relax and enjoy the scenic views.

 

Route:

From Ushu Forest to Fizagat Park

Distance: 35 km (approx. 1.5 hours by car).

Stay Hotels in Mingora.

 

10. Swat Museum: A Cultural Treasure

 

Details:

The Swat Museum in Saidu Sharif houses an impressive collection of artifacts from the Gandhara civilization, showcasing the region's rich history and cultural heritage. The museum's exhibits include ancient sculptures, coins, and pottery, providing a fascinating glimpse into Swat's past.

Route:

From Fizagat Park to Swat Museum

Distance: 3 km (approx. 10 minutes by car).

Stay: Continue staying in Mingora or Saidu Sharif.

 

11. Shingrai Waterfall: Nature’s Spectacle

 

Details:

Shingrai Waterfall, located near Mingora, is a stunning natural wonder perfect for day trips and picnics. The waterfall cascades down a rocky cliff, creating a mesmerizing sight and a refreshing atmosphere. The area is ideal for photography and nature walks.

 

Route:

From Swat Museum to Shingrai Waterfall

Distance: 20 km (approx. 1 hour by car).

Stay: Return to Mingora for accommodation.

 

12. Utror Valley: Serene and Scenic

 

Details:

Utror Valley is known for its stunning landscapes and tranquil environment. This serene destination is perfect for nature lovers and trekkers looking to escape the crowds. Explore the lush green fields, crystal-clear streams, and panoramic mountain views.

 

Route:

From Shingrai Waterfall to Utror Valley

Distance: 72 km (approx. 3.5 hours by car).

Stay: Local guesthouses and camping options.

 

13. Matiltan: Gateway to Adventure

Details:

Matiltan, a scenic village near Kalam, offers breathtaking views of mountains and glaciers. The village is a starting point for several trekking routes and is known for its picturesque landscapes and friendly locals. It’s a perfect spot for adventure enthusiasts.

 

Route:

From Utror Valley to Matiltan

Distance: 20 km (approx. 1 hour by car).

Stay: Guesthouses and camping in Matiltan.

 

14. Gabral Valley: A Hidden Gem

 

Details:

Gabral Valley is an off-the-beaten-path destination known for its lush green fields and beautiful landscapes. It’s an ideal spot for hiking, exploring nature, and experiencing the local culture. The valley’s pristine beauty makes it a hidden gem waiting to be discovered.

 

Route:

From Matiltan to Gabral Valley

Distance: 22 km (approx. 1.5 hours by car).

Stay: Return to Matiltan or Kalam for accommodation.

 

15. Saidu Baba Shrine: A Spiritual Haven

 

Details:

The shrine of Saidu Baba, a revered spiritual figure, is a significant religious site in Swat. Located in Saidu Sharif, the shrine attracts pilgrims and visitors seeking spiritual solace. The peaceful surroundings and the shrine’s historical importance make it a must-visit.

 

Route:

From Gabral Valley to Saidu Baba Shrine

Distance: 94 km (approx. 4 hours by car).

Stay: Final night in Mingora or Saidu Sharif.

 

 

Swat Valley is a treasure trove of natural beauty, rich history, and cultural heritage. Following this route will allow you to experience the best of what Swat has to offer. Whether you’re seeking adventure, tranquility, or a deep dive into history, Swat has something to offer.

Plagiarism Checker for every one

                        Plagiarism Checker 


Plagiarism Checker

Plagiarism Checker

Ensure your content is original with our advanced plagiarism checker. Simply paste your text into the box below and click "Check for Plagiarism" to get started.

Check for Plagiarism

How It Works

Our plagiarism checker scans your text against billions of web pages and academic papers. It highlights any duplicate content and provides a detailed report with sources.

Why Use a Plagiarism Checker?

Plagiarism can damage your reputation and credibility. Using a plagiarism checker helps you to ensure your work is original and free from unintentional plagiarism.

Features

  • Fast and accurate results
  • Comprehensive database
  • Detailed plagiarism reports
  • User-friendly interface

Contact Us

If you have any questions or need support, please contact us.

Youtube Video Downloader for you

Youtube Video Downloader for you Tool Web - YouTube Video Downloader

Tool Web

Your go-to YouTube Video Downloader

Download YouTube Video

© 2024 Tool Web - All Rights Reserved




Best Places to Eat in Birmingham: Food Lover's Guide

  Discover the Best Places to Eat in Birmingham Birmingham, a vibrant city in the heart of England, is known for its rich cultural diversi...

web

Cars